The story of Adnan Sarwar, a Pakistani-born British pilot who overthrew Saddam Hussein – in his own words
بشکریہ اکانومسٹ
تلخیص و ترجمہ: امجد محمود

24 فروری2003 کو میں عراق جنگ میں حصہ لینے کے لئے جس جہاز میں سوار ہوا وہ فحش رسالوں سے بھراہوا تھا۔ہم آکسفورڈشائر سے رائل ائرفورس کے طیارے میں سوارہوئے۔یہ ایک بالکل عام سی پرواز تھی جس میں بورڈنگ پاسز،پاسپورٹس اور ذاتی سامان کے وزن کی پابندیاں تھیں۔آدھا رستہ طے کرنے کے بعدہمیں بتایا گیا کہ ہماری منزل ایک اسلامی ملک کویت ہے جہاں پورن مواد بالکل ممنوع ہے۔یہ بالکل ایسا ھی تھاجیسے سولجرز سے ان کی رائفلیں چھین لی جائیں۔بہت سوں نے اپنی پسندیدہ تصاویرپھاڑ کراپنی واٹرپروف آرڈر بکس میں چھپا لیں۔وہ جانتے تھے کہ وہ اب چھ ماہ تک اپنی بیویوں اورگرل فرینڈز سے مل نہیں پائیں گے۔
میں ایک اکلوتا 24سالہ مسلمان جہاز میں تھا جس کے پاس ایسا مواد موجود نہیں تھا۔لیکن میں بھی ایسا کچھ چاھتا ضرور تھا۔میرے ساتھ والے ایک گورکھے نے اپناچھپایا ہوا خزانہ اپنی سیٹ کے نیچے چھپا لیا،میں نے جیسے ہی اسے کھینچنا چاہا اس کے بوٹ کا دباوبڑھ گیا۔لیکن ایک فلایٹ اٹینڈنٹ نے بھانپ لیا اور سب ردی کی ٹوکری کی نظر ہو گیا۔
میں برنلے میں ایک مسلمان گھرانے میں پلا بڑھا۔میرے والدین 1970کی دھائی میں پاکستانی پنجاب سے برطانیہ آئے تھے اور یہاں ایک کارنر شاپ کھول لی تھی۔انہوں نے تو ایک بہتر مستقبل کے بارے میں سوچا ھو گا لیکن میں یہاں تنہائی کا شکار ہو گیاتھا۔میں سکول سے آنے کے بعد روزانہ مسجد میں قرآن سیکھنے جانے سے بور ھو گیا تھا۔حقیقی معنوں میں قاری صاحب ہمیں قرآن پڑھاتے نہیں،مارتے تھے۔جب میرے سکول کے گورے ساتھی گھر سے دور جانے اور سیروتفریع کا ذکر کرتے تومجھے اس کی کچھ سمجھ نا آتی کیونکہ میں تو اپنی دینی پڑھائی میں الجھا رھتا تھا۔جب کہ وہ ٹی وی دیکھتے اور انجوائے کرتے تھے۔گلیوں سے گزرتے ہوئے لوگ مجھ پر تھوکتے اور پاکی پاکی کی آوازیں لگاتے تھے۔میں آزادی بھری زندگی اور ایڈونچر چاھتا تھا۔بستر پر لیٹ کر ریڈیو فور سنتے ہوئے میں ایک مختلف دنیا کا تصور آنکھوں میں بسائے رکھتا۔والدین مجھے ڈاکٹر بنانا چاھتے تھے لیکن میں اپنے اے لیول میں پھنس کر رہ گیا۔اگر مجھے برنلے میں ھی رہنا پڑتا تو میں ایک ٹیکسی ڈرائیور بن جاتا یا کباب فروش۔لیکن پھر رائل میرینزمیں بھرتی کے لیے لوگ کالج آئے اور کمانڈو ٹریننگ اور پیراشوٹنگ کی باتیں کیں تو میں نے خود کو فوج میں پایا۔مجھے ریمبو ٹائپ امریکی جنگی فلمیں دیکھ کر فوجی بننے کا ویسے ہی من چاھتا تھا۔جب سن اخبار نے1991 کی گلف وار کے دوران برطانوی پائلٹوں جان نکول اور جان پیٹرکی گرفتاری اور رھائی پانے کی تصاویر شائع کیں جنہوں نے مجھ پر گہرا اثر ڈالا اور وہ مجھے ھیرو لگنے لگے۔مجھے نیم دلی سے پڑھائی مکمل کرنے اور یارک شائر سٹریٹ کے بھرتی مرکزمیں جانے میں کچھ سال لگے۔جب میں نے ملکہ اور ملک کے تخفظ کا حلف اٹھایا۔جو کہ میری جنگ پر جانے کی اصل خواھش سے کچھ بڑھ کر ہی تھا۔ ون چیسٹر میں میری ٹریننگ میرے خوابوں کے عین مطابق تھی۔ایک سبق کے دوران ھم نے سٹینلے کرک کی فل میٹل جیکٹ مووی دیکھنا تھیجو ویت نام کی جنگ کے بارے میں تھی۔میں رائل انجینیرز میں شامل ھو گیا۔ نائن الیون کو میں وھاں بیٹھا سوچ رھا تھا کہ میں کیا جنگ پرجا پاؤں گا۔لیکن بدقسمتی سے ابھی مجھے بم ڈسپوزل کی تربیت حاصل کرناباقی تھی۔ایک مہربان سارجنٹ نے میرا جوش دیکھتے ہوئے پوچھا کیا تم پشتو بول لیتے ہو؟۔۔نہیں،میں نے کہا۔کیا ایسا ظاہر بھی نہیں کر سکتے؟وہ مایوس کن لہجے میں بولا۔۔میں افغانستان نا جا سکاکیونکہ میرا کورس اتنی جلد ختم ھونے والا نہیں تھا۔
جاری ھے

Editor in Chief.