Independence Day of Pakistan
حبس سے بہار تک
قیام پاکستان موسمی حبس کے بدترین ایام میں روپذیر ہوا۔تب سے لے کرآج تلک…….اس موسمی حبس کو سماجی،ثقافتی اور سیاسی حبس میں تبدیل ہونے میں سات دہائیوں کا عرصہ لگاہے۔ہر سال ہر قسم کی حبس میں شرابور اہل وطن مگرپھر بھی آزادی کا جشن خوب مناتے ہیں۔۔۔کویئ دونوں ہاتھ اٹھا کر، کویئ بائیک کا سائلنسر اتار کر۔۔۔ اور کویئ بڑا کھانا کھا کر۔۔۔ایک سوچ موھوم سی مگردل میں رہتی ہے کہ اب بس تھوڑے دن ہی باقی ہیں اس حبس کے اور ٹھنڈی خنک ہواؤں بھری شاموں کا موسم آنے ہی والا ہے۔
ٓٓٓآنکھوں میں سداایک موہوم سی امید جاگی رہتی ہے۔
۔۔۔لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔۔۔
وقت لیکن تھمتا نہیں۔۔زندگی کا سفر جاری رھنا ہے۔کیئ خود کو ناگزیر سمجھنے والے خاک میں خاک ہو چکے۔سبق مگر کم ہی سیکھتے ہیں۔اس کایئنات میں کچھ بھی ختمی اورناگزیرنہیں۔خصوصاً زندہ اجسام تو بالکل ہی نہیں۔۔۔۔تو پھر کیوں بہار کا رستہ روکا جائے۔۔کیوں تازہ ہواوئں کے لیے در بند کیے جایئں۔۔۔اور کھڑکیوں پر بھاری پردے گرا دیے جائیں۔۔۔اہل یورپ نے یہ پردے ھٹائے تو انہیں زندگی کی چمک اور رمق نظر آیئ۔۔۔وہ اب اینٹوں اور پتھروں کی بجائے کھلے ہوادار شیشے کے گھربنا رہے ہیں تاکہ باہر کے منظر،ھوا اور دھوپ کسی رکاوٹ کے بغیر ان تک پہنچیں۔ان شیشے کے گھروں کو اگرچہ بیرونی پتھروں کا خطرہ بھی لاحق ہے مگر روشنی ھوا اور دھوپ کی لگن سب خدشات پر بھاری ہے۔
پاکستانی آج جس منظرنامے میں آزادی منا رہے ہیں وہ کچھ اتنا دل خوش کن نہیں۔۔۔آس پڑوس میں سکون کی بجائے بے چینی ہے اضطراب ہے اور اقتدار کی خون آلود جنگ جاری ہے۔آگ اور دھوئیں میں لپٹا مستقبل وحشتناک ہے۔۔آگ کی لپٹیں سرحدوں کی پابند نہیں ہوتیں۔۔ایک گھمبیر صورتحال جاری ہے جو کس کروٹ بیٹھے کویئ نہیں جانتا۔۔بہتا سستا انسانی خون۔۔ہتھیار گرانے اور چھیننے کی کشمکش۔۔۔درختوں اور شہروں کے دروازوں پر لٹکی بے جان لاشیں۔۔سربریدہ لاشیں ہوں یا جنوبی ایشیا کے ڈیڑھ ارب غریب ترین انسانوں کی زندہ لاشٰیں۔۔۔کویئ بتلائے ان میں آخر فرق ہی کیا ہے؟۔۔۔یہ زندہ لاشیں ان کو پہچاننے سے قاصر ہیں جو انہیں اسی کسمپرسی کی حالت میں رکھنا چاھتے ہیں۔۔۔گولہ بارود کے ڈھیر سجا کر۔۔۔ نت نئے ترشول،اگنی،پرتھوی،برھماس،شاھین،غزنوی،ھتف بنا کر کسے فتح کرنے چلے ہیں جناب؟ غربت ِ؟ بیماریاں؟ ناخواندگی؟ بیروزگاری؟۔۔۔۔۔یا بڑھتی آبادی؟
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض وطن
جو تیرے عارض بے رنگ کو گلنار کرے
جنوبی ایشیا معاشی اور تمدنی اعتبار سے دیگر دنیا سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔۔وجہ ہمارے حکمرانوں کی غلط ترجیہات۔۔اسلحے کے ڈھیر غریبوں کی بے جان لاشوں پر سجائے گئے ہیں۔۔نا یہاں سیاسی استحکام نظر آتا ہے نا معاشی۔۔جمہوریت جو انسانوں کے لئے واحد قابل قبول سیاسی نظام ہے وہ بھی کہیں پنپتا دکھائی نہیں دیتا۔۔غیر جمہوری رویے شعلہ فشاں نظر آتے ہیں۔۔کیونکہ ہمارے ایک فلسفی شاعر حقارت سے جمھوریت کو محض بندوں کی گنتی قرار دے چکے۔۔نتیجے کے طور پر ہم ہر لحاظ سے پسماندہ رہ گئے ہیں۔۔ذہنی، سیاسی، معاشی پسماندہ۔۔۔شاہ دولہ کے چوھے بن کر رہ گئے ہیں۔۔دنیا میں کروڑوں خواتین روزانہ بکنی میں سویمنگ کرتی ہیں مگر ہماری حریم شاہ ملبوس ہو کربھی پانی میں ڈبکی لگائے تو میڈیا اس کی ویڈیو وائرل ہونے کی نوید سناتا ہے۔۔۔ یہ ذھنی پسماندگی نہیں تو کیا ہے؟؟؟
اس یوم آزادی پر تو ہمارے آقاوں اور سر جی کو سوچنا چاہئے کہ آخر غلطی ہو کہاں رہی ہے۔۔۔اور اسے سلجھانا بھی ہے یا نہیں؟؟اگر زندوں میں اپنا شمار کرنا ہے تو۔۔۔۔اگردنیا کے ساتھ شانہ بشانہ چلنا ہے تو
اور اجتماعی انسانی ترقی اور خوشحالی کے مقدس فریضے کو سرانجام دینا ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔وماعلینہ اللبلاغ
آج پاکستان کے 74 ویں یوم آزادی کے موقع پر ایک نئی پاکستانی نیوز اینڈ ویوز ویب سائٹ
پاک پریس ڈاٹ پی کے
کاباقاعدہ اجرا کیا جا رہا ہے۔ اس میں پاکستانی امور کے ساتھ ساتھ بالخصوص سارک اورجنوبی ایشیا پراوربالعموم باقی دنیا پرتوجہ دی جائیگی۔ اور امن ترقی جمہوریت اور انسانی حقوق کاپرچم بلندکیاجائیگا۔ہم کوشش کریں گے،ا سے سراھنا اور قبولیت دینا آپ دوستوں پر۔آپکا تعاون ھمارے لئے باعث تقویت ہوگا۔
سی ای او۔ایڈیٹرانچیف
امجد محمود

Editor in Chief.